Malala injured friend kainat story about taliban attack(what happened)

please translate article from urdu to english.very interesting story

گزشتہ ماہ پاکستان میں طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والی ملالہ یوسف زئی کے نام پر آج لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ بی بی سی کی شائمہ خلیل نے ان کی ساتھی کائنات سے بات کی۔ کائنات ملالہ کی سہیلی بھی ہیں اور اس حملے میں زخمی بھی ہوئی تھیں۔
ملالہ یوسف زئی کے ہمراہ طالبان کے حملے میں زحمی ہونے والی کائنات ریاض اُس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہر طرف افرا تفری مچ گئی
’جب ایک شخص ہماری گاڑی میں داخل ہوا اور پوچھنے لگا کہ ملالہ کہاں ہے؟ ملالہ کون ہے؟ تو ہمیں لگا کہ یہ کوئی مذاق ہے کیونکہ ملالہ کو کوئی بھی با آسانی پہچان سکتا تھا۔ ہم سب تو اپنے چہرے کو ڈھانپ رکھتی ہیں لیکن ملالہ ایسا نہیں کرتی تھی۔‘
’جیسے ہی ملالہ نے کہا کہ میں ملالہ ہوں تو اس شخص نے اُسے گولی مار دی۔ وہ ایک ہی گولی کے بعد گرگئی۔‘
’جب اس شخص نے گولی چلائی، وہ لمحہ انتہائی خوفناک تھا ۔ وہ شخص ملالہ کےگرنے کے بعد بھی وہاں کھڑا رہا اور میرے ہاتھ پر گولی مار دی۔‘
’میں اپنا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ سب کچھ بہت تیزی سے ہوا۔‘
’سب لوگ چِلّا رہے تھے۔ لوگوں سے رونا شروع کر دیا۔ ڈرائیور کو احساس ہوگیا تھا کہ کیا ہوا ہے اس لیے وہ رکا نہیں‘۔
ملالہ کی سکول بس کے ڈرائیور نے بہت ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں زخمی لڑکیوں کو ہسپتال پہنچایا۔ ملالہ اور کائنات کے علاوہ ایک اور لڑکی بھی اس حملے میں زخمی ہوئی۔
کائنات کو یاد ہے کہ وہ بے ہوش ہونے سے پہلے اپنے والد کو دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا انہیں کچھ یاد نہیں۔
کائنات واپس گھر جا چکی ہیں جہاں ان کے ہاتھ کا زخم بہتر ہو رہا ہے۔
"میری نانی اور دادی دونوں کہتی ہیں کہ میں ان کے پاس جا کر رہوں۔ یہ بہت عجیب ہے، پہلے میں وہاں جانا پسند کرتی تھی لیکن اب میں وہاں نہیں جا سکتی۔ میں اب تک خوفزدہ ہوں۔"
کائنات ریاض
وہ کہتی ہیں کہ اس دن کی تمام یادوں پر خوف اور ناسمجھی کی کیفیت غالب ہیں۔ کائنات کی سہیلی ملالہ کو پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم کارکن کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ اس وقت برطانیہ میں زیرِ علاج ہیں۔
ملالہ نے دو ہزار نو میں طالبان کے دور میں اس وقت بی بی سی اردو کے لیے ایک ڈائری لکھی جب لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
کائنات کے والد ریاض کا کہنا ہے کہ انہیں اس واقعے کے بارے میں کائنات کی والدہ اور چچا نے بتایا جس کے بعد وہ سیدھے ہسپتال روانہ ہو گئے ۔
وہ کہتے ہیں’ اس کی چادر اور شلوار خون سے لت پت تھی۔ میں ڈر گیا کہ اس کے پیٹ میں بھی گولی لگی ہے۔‘
’میرے دماغ میں صرف ایک بات گردش کر رہی تھی کہ کیا یہ بچ پائے گی۔ یہ ایک ڈراؤنے خواب سے بھی بدترین تھا۔‘
کائنات جب ہوش میں آئی تو وہ ہسپتال میں تھی۔ وہ اس وقت بہت پریشان تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ کئی گھنٹوں تک روتی رہی۔
کائنات نے بتایا کہ ’لوگ چاہتے تھے کہ میں علاج کے لیے ہسپتال میں رکوں لیکن میں خوفزدہ تھی اور گھر جانا چاہتی تھی۔‘
’میں نے کہا نہیں! مجھے اپنی امّی اور ابّو کے پاس جانا ہے۔ اور میں وہاں سے آ گئی۔‘
کائنات کو یاد ہے کہ وہ اس وقت ڈر رہی تھیں کہ حملہ آور ان کے پیچھے ہسپتال نہ آجائے۔ ’میرے دماغ میں بالکل یہی چل رہا تھا۔ میں باقاعدہ اپنے گھر کے لیے وہاں سے بھاگی۔‘
کائنات اس وقت اپنے گھر میں ہیں اور صحت یاب ہو رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے آبائی گھر کے باہر محافظوں کی موجودگی کے باوجود وہ خود کو مکمل محفوظ نہیں سمجھتیں۔
’میں اس کے بعد گھر سے نہیں نکلی۔ میرے ذہن میں کچھ ہے جو مجھے روک رہا ہے۔ میں باہر جانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘
’ملالہ تم خوش رہنا۔ جلد صحت یاب ہو جاؤ۔ میں تمہیں دوبارہ صحت مند دیکھنا چاہتی ہوں۔ واپس آؤ تا کہ ہم ایک ساتھ سکول جا سکیں۔‘ کائنات کا ملالہ کے لیے پیغام
کائنات کا کہنا ہے ’میری نانی اور دادی دونوں کہتی ہیں کہ میں ان کے پاس جا کر رہوں۔ یہ بہت عجیب ہے، پہلے میں وہاں جانا پسند کرتی تھی لیکن اب میں وہاں نہیں جا سکتی۔ میں اب تک خوفزدہ ہوں۔‘
کائنات کے لیے سب سے مشکل کام یہ سوچنا بند کرنا ہے کہ اُس روز کیا ہوا تھا۔
’میری ایک خالہ اسی بس میں تھیں وہ مجھ سے ملنے آئیں۔ اسی حملے میں زخمی ہونے والی دوسری لڑکی سے بھی میری بات ہوئی۔ ہم جب بھی بات کرتے ہیں اُسی واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ہمیں وہ سب یاد ہے لیکن ہمارے والدین کہتے ہیں اُسے بھول جائیں۔‘
’جب میں اس دن کو یاد کرتی ہوں، میں رونے لگتی ہوں، روتی رہتی ہوں پھر چُپ نہیں ہو پاتی۔‘ اپنے تمام خوف کے باوجود کائنات سکول جانے لگی ہے۔ اس کے اساتذہ اور سکول کے ساتھوں نے اس کا استقبال کیا۔
کائنات کا کہنا تھا کہ ’میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں، اور میں ایسا تب تک نہیں کر سکتی جب تک میں سکول نہیں جاؤں گی۔‘
ان کے والد اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ کائنات اور اس کی سہیلیوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے تعلیم۔
کائنات کے والد کا کہنا ہے ’تعلیم ہمارا مقصد ہے اور ہمیں اپنی لڑکیوں کو لڑکوں کی نسبت زیادہ تعلیم دلوانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔‘
اپنی سہیلی ملالہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کائنات کا کہنا تھا کہ اس نے لڑکیوں کی تعلیم اور دیگر معاملات کے بارے میں جو کچھ لکھا اس کے بارے میں اس نے اپنی سہیلیوں کو بتایا۔
کائنات کے بقول ’دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ (ملالہ) خوفزدہ تھی لیکن پھر بھی اس نے لکھنا جاری رکھا۔‘
کائنات نے کہا ’اس چیز نے ہمیں کسی بھی سے خوفزدہ نہ ہونے کا حوصلہ دیا۔ اس (ملالہ) نے ہمیں مضبوط بنایا۔‘
کائنات نے آخر میں اپنی سہیلی کے لیے ایک پیغام دیا۔ کائنات نے ملالہ سے کہا ’ملالہ تم خوش رہنا۔ جلد صحت یاب ہو جاؤ۔ میں تمہیں دوبارہ صحت مند دیکھنا چاہتی ہوں۔ واپس آؤ تا کہ ہم ایک ساتھ سکول جا سکیں۔

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.
Design by webbilgi.org